گھٹیا لہجہ‘زمانہ تنگ‘اولاد پریشان
ایک شخص ڈبڈباتی آنکھوں‘ لرزتےلہجوں اور کانپتے جسم کے ساتھ اپنے غم کی داستان سنا رہے تھے اور سناتے سناتے بار بار ایک سچی بات کہہ رہے تھے ۔
کہنے لگے :’’ میری بیوی بہت سخت مزاج‘ سخت زبان بلکہ بدزبان ہے‘ نہ میری رعایت‘ نہ میری اولاد کی رعایت‘ نہ محلے پڑوسیوں کی رعایت‘ اس کے حلق میں زبان نہیں سپیکر ہے‘ بہت اونچا بولتی ہے‘ رعایت نام کی چیز اس نے سیکھی ہی نہیں ‘لہجہ میں تلخی‘ ہروقت تنز‘ ہروقت ذہن الجھا ہوا‘ تعریف‘ شکرگزاری‘ تحسین اس سے صدیوں دور۔آج تک اس سے کبھی حوصلہ‘ شکر گزاری‘ کا لفظ نہ دیکھا‘ نہ سنا۔ وہ ہروقت کڑھتی ہے‘ بولتی ہے‘ تھوڑی سی بات پر بددعائیں ‘ گالیاں‘ گھٹیا لہجہ‘ چھوٹے سے لفظ پر جھڑک دیتی ہے‘ زمانہ تنگ ہے‘ اولاد پریشان ہے۔
اپنے بیگانے اور بہت دور ہو گئے
میں پریشان‘ مایوس‘ الجھا ہوا‘ میرا اندر دن میں کئی بار ٹوٹتا ہے اور اس ٹوٹے اندر کو کئی بار میں سنبھالتا ہوں‘ دنیا کی ہر نعمت اس کے پاس ‘ہر عطا اس کے اوپر ‘ہر شفقت اور مہربانی ہے لیکن وہ ہروقت کی ناشکری‘ ایک چیز اس پر غالب رہتی ہے ۔ہر فرد میری بے عزتی کررہا ہے‘ شوہر میری بے عزتی کررہا‘ میں اولاد اور لوگوں کی سرپرستی کررہا ہے مگراس کو ہروقت اپنی عزت کا شکوہ کہ میری بے اکرامی ہوگئی ‘ میرا احترام نہیں‘ میں نے اس گھر کے لیے شوہر اولاد کے لیے کیا کیا قربانیاں دیں‘ پھر ان قربانیوں کے لیے لمبی داستان اور ایک لمبا لیکچر ہوتا ہےجو دن میں کئی بار چلتا ہے اور چلتے چلتے دن ڈوب جاتا ہے اور ڈوبتے ڈوبتے پھر ابھرتا ہے‘ زمانہ نالاں ہے‘ بہت چھوڑ گئےاور بہت زیادہ دور ہوگئے ہیں۔ اپنی بھابیاں جو قریب ہیں ان پر خاموش‘ ان کی صبح کی صبح اور ان کی شام کو شام‘ ان کے دن کو دن اور ان کی رات کو رات۔ پھر تو گھر بچتا ہے ورنہ نہیں‘ ورنہ گھر ایک طوفان‘ اس کی وجہ سےمیں ہروقت خود بیمار‘ خون کی کمی‘ جسم ٹوٹا‘ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا‘ روگ لگے ہوئےہیں چونکہ ہروقت ڈانٹ ڈپٹ ہے‘ ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے اولاد میں نفسیاتی دباؤ ہے۔پھر وہ اپنی بیماریوں کا شکوہ کرتی ہے‘کسی نے میرا خیال نہ کیا ہر بندہ اپنا خیال کرتا ہے۔‘‘
چالیس سال کا طویل عرصہ اور غمزدہ واقعات
یہ انوکھا قصہ ہے جو وہ شخص مجھے سنا رہے تھے اور یہ ایک شخص نہیں اس طرح کی بے شمار زندگی کی داستانیں میں نے 1984ء سے 2024ء چالیس سال کے اس سفر میں سنی ہیں اور سن رہا ہوں جب وہ شخص اپنی کہانی سنا کر چپ ہوگیا جبکہ میں محسوس کررہا تھا کہ اس کی سچی داستان ابھی موجود ہے‘ اس کے غم کا قصہ طویل ہے تو میں نے ان سے پوچھا اب آپ کیا چاہتے ہیں؟
غمزدہ لہجہ میں کہنےلگا :بس آپ سے دعا چاہتا ہوںا ور میں اسے چھوڑ اس لیے نہیں سکتا کہ اس بیوی نےمیرے ماں باپ کی خدمت کی ہے‘ مجھےمیرے رشتہ داروں سےملوایا ہے اور میرے رشتہ داروں کا احترام کیا ہے۔ اس کا اتنا بڑا احسان ہےکہ اسے چھوڑ نہیں سکتا اور فیصلہ کیا ہےکہ اس لہجہ اور اس انداز کو سہتا رہوں گا‘ اولاد کو تلقین کرتا رہوں گا ۔ اس کا یہ احسان مجھ پر بہت بڑا ہے جو اس نے میری وہ خدمات کیں جو میں نے اوپر بیان کی ہیں۔
کڑوا مگر لاجواب سبق
قارئین! ایک بہترین سبق جو میرے اورآپ کے لئے کرنے کے قابل ہے‘ کچھ کڑوا ضرور لیکن سبق لاجواب ہے‘ ہم بھی اسی طرح محبتیں بانٹیں اور سختیوں کے جواب نرمیوں سے دینےکا مزاج بنائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں